Posts

Showing posts from 2017
: ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭘﮩﻼ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺣﺪ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻠﮏ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﭩﻤﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺑﻨﺎ .. ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﻮﻣﯽ ﺗﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﮬﻦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﺑﮍﯼ ﺩﮬﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﺭﺟﮧ ﺑﻨﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﻤﺒﺮ ﭘﺮ ﮨﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﭼﻮﺗﮭﺎ ﺑﮍﺍ ﺑﺮﺍﮈ ﺑﯿﻨﮉ ﺍﻧﭩﺮﻧﯿﭧ ﺳﺴﭩﻢ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺑﮍﯼ ﻓﻮﺟﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺍﯾﺌﺮ ﮐﻤﻮﮈﻭﺭ ﻣﺤﻤّﺪ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﭧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﮐﮯ 5 ﺟﻨﮕﯽ ﺟﮩﺎﺯ ﻣﺎﺭ ﮔﺮﺍﮰ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﭼﺎﺭ ﺟﮩﺎﺯ ﺻﺮﻑ 30 ﺳﯿﮑﻨﮉﺯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭ ﮔﺮﺍﮰ ﺗﮭﮯ . ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ ﮨﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﮔﻠﮯ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ، ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﺟﻮ ﺑﺮﯾﮑﺲ ﮐﯽ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﻣﻌﯿﺸﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﯾﮟ ﺑﻠﻨﺪ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﭼﻮﭨﯿﺎﮞ ﮐﮯ ﭨﻮ ﺍﻭﺭ ﻧﻨﮕﺎ ﭘﺮﺑﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ . ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﭼﮭﭩﺎ ﺑﮍﯼ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﻭﺍﻻ ﻣﻠﮏ ﮨﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﻣﻠﮏ ﮨﮯ ﺗﺮﺑﯿﻼ ﮈﯾﻢ ﺭﻗﺒﮯ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻭﺳﯿﻊ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﮈﯾﻢ ﮨﮯ ﺍﯾﺪﮬﯽ ﻓﺎﻭﻧﮉﯾﺸﻦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺍﯾﻤﺒﻮﻟﯿﻨﺲ ﻧﯿﭧ ﻭﺭﮎ ﭼﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﺑﺮﺍﻋﻈﻢ ﺍﯾﺸﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺠﯿﻨﯿﺮﺯﮐﮯ ﻟﺤ
اسلام میں خنزیر کا گوشت کھانے کی ممانعت کیوں ہے ؟؟ جرمنی میں مقیم ایک عرب ڈاکٹر (مذہبی اسکالر) کا کہناہے کہ ایک جرمن شخص نے ان سے اسلام میں خنزیر کا گوشت کھانے کی ممانعت کی وجہ دریافت کرتے ہوئے کہا کہ وہ مجھے اس بات پر مطمئن کرے ۔ لیکن سائل کاتقاضا تھا کہ توجیہ سائنسی ہونی چاہئے مذہبی نہیں کیونکہ وہ لامذہب تھا ۔۔ میں نے اس شخص سے ایک گھنٹے کی مہلت طلب کرنے کے بعد انٹرنیٹ پر انگریزی اورجرمن زبانوں میں خنزیر کے گوشت کے مضرصحت اور منفی اثرات سے متعلق تحقیقات پڑھنی شروع کیں ۔ مجھے سب سے زیادہ جس تحقیق نے متاثر کیا وہ تھی جرمن فوڈ اسٹینڈرڈز سپروائزری بورڈ کی اپنی تحقیق ،جسے ادارے نے اپنی ویب سائٹ پربھی شائع کیا تھا ۔۔ ۔جرمن ادارے نے خنزیر کی جن طبعی خصلتوں کا تعارف کرایاتھا ان میں سے چند یہ ہیں ۔ خنزیرکی مرغوب غذا مردارہے ۔ وہ مردار گوشت سے پیٹ بھرنا پسند کرتاہے خواہ وہ مراہوا اس کا ہم جنس جانور یہاں تک کہ اس کا باپ کیوں نہ ہو ۔ ۔خنریز تقریبا ہرچیز کھاتا ہے ۔ اپنا بول وبراز اوردیگر جانوروں کا فضلہ میل کچیل اور نشہ آور بیل بوٹیاں بھی نہیں چھوڑتا۔ ۔غیر معمولی مردار خوری کے باعث
#Admin ***** انتہائ خوبصورت تحریر ****** کہتے ہیں ایک بچے نے کچھوا پال رکھا تھا، اُسے سارا دن کھلاتا پلاتا اور اُسکے ساتھ کھیلتا تھا۔ سردیوں کی ایک یخ بستہ شام کو بچے نے اپنے کچھوے سے کھیلنا چاہا مگر کچھوا سردی سے بچنے اور اپنے آپ کو گرم رکھنے کیلئے اپنے خول میں چُھپا ہوا تھا۔ بچے نے کچھوے کو خول سے باہر آنے پر آمادہ کرنے کی بُہت کوشش کی مگر بے سود۔ جھلاہٹ میں اُس نے ڈنڈا اُٹھا کر کچھوے کی پٹائی بھی کر ڈالی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ بچے نے چیخ چیخ کر کچھوے کو باہر نکنے پر راضی کرنا چاہامگر کچھوا سہم کر اپنے خول میں اور زیادہ دُبکا رہا۔ بچے کا باپ کمرے میں داخل ہوا تو بچہ غصے سے تلملا رہا تھا۔ باپ نے بچے سے پوچھا؛ بیٹے کیا بات ہے؟ بچے نے اپنا اور کچھوے کا سارا قصہ باپ کو کہہ سُنایا، باپ نے مُسکراتے ہوتے بچے کا ہاتھ تھاما اور بولا اِسے چھوڑو اور میرے ساتھ آؤ۔ بچے کا ہاتھ پکڑے باپ اُسے آتشدان کی طرف لے گیا، آگ جلائی اور حرارت کے پاس ہی بیٹھ کر بچے سے باتیں کرنے لگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر گُزری تھی کہ کچھوا بھی حرارت لینے کیلئے آہستہ آہستہ اُن کے پاس آ گیا۔ باپ نے مُسکرا کر بچے کی طرف دیکھ
ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺴﯽ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﺎﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮩﻞ ﻗﺪﻣﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺸﻔﻘﺎﻧﮧ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺗﮭﮯ ۔ ﭼﮩﻞ ﻗﺪﻣﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺧﺴﺘﮧ ﺣﺎﻝ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻮﮌﯼ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﻮ ﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﮐﮭﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ، " ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﭽﮫ ﺩﻝ ﻟﮕﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺗﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺟﮭﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﮭﭗ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻮﺗﮯ ﻧﮧ ﻣﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ " ۔ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ، " ﮨﻤﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﺤﻈﻮﻅ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺬﺍﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ، ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﯿﺮ ﻟﮍﮐﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﯽ ﻭﺳﺎﻃﺖ ﺳﮯ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﺍﺣﺴﻦ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺳﮯ ﻣﺤﻈﻮﻅ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﺍﻥ ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻮﮌﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺳﮑﮧ ﮈﺍﻝ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﭼﮭﭗ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﮑﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺭﺩ ﻋﻤﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ " ۔ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﮨﯽ ﭼﮭﭗ ﮔﺌﮯ ۔ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺎﻡ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﻟﻮﭨﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺳﮑﺎ ﮐﻮﭦ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺗﮯ
Image
کیمرہ آن ہوا۔۔۔ خاتون میزبان نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا اور کہنے لگیں ’’رمضان کا مہینہ ہمیں برداشت اور رواداری کا درس دیتاہے‘ اس مہینے میں ہم بھوک اور پیاس کے ذریعے اللہ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں ‘ سحری اور افطاری کی برکات سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور مہینے کے تیس دن اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بالغ مسلمان پر روزہ فرض کیا ہے لہذا ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ پورے روزے رکھیں۔۔۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز کریں گے ایک نعت رسول مقبولؐ سے ۔۔۔لیکن اس سے پہلے لیتے ہی ایک چھوٹی سی بریک۔۔۔ہمارے ساتھ رہئے گا‘‘۔کچھ لمحے وہ کیمرے کی طرف دیکھتی رہیں‘ سائیڈ پر ایک بڑا سا ٹی وی رکھا تھا جس پر لائیو ٹرانسمشن نظر آرہی تھی۔ دو تین سیکنڈ کے بعد وہاں اشتہارات چلنا شروع ہوگئے جس کا مطلب تھا کہ اب خاتون لائیو نہیں جارہیں۔ انہوں نے اطمینان سے دوپٹہ اتارا اور سائیڈ پر پڑی ہوئی ڈبی اٹھا کر ایک سگریٹ سلگایا اور ہونٹوں سے لگا کر کش لینے لگیں۔میری آنکھیں پھیل گئیں۔ان کے سامنے دو عدد مولوی صاحبان بھی موجود تھے لیکن کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ یہ واقعہ آج سے تین سال پہلے کا ہے جب میں نے پہلی دفعہ ٹی وی سٹیشن کے
ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے اوازے نکالنےلگا. گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا. جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں، اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا، اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں. یہ سوچ کر اس نے اپنے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا. سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھےگھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا. اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی. کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا. جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے. یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا. کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر او
فیس بُک ایسی جگہ ہے جہاں کوئی لڑکی اگر کسی غیر مرد کو لِفٹ نہ کرائے یا اُس سے دوستی نہ کرنے کو تر جیح دے غلط کو غلط کہے تو میرے کچھ  بھائی حضرات بہت ہی احمقانہ بات کہہ دیتے ہیں کہ” اتنی نیک ہو تو بی بی فیس بُک پر کیوں ہو“ ؟ اللہ کے بندے ہوش کرو  فیس بُک پرکسی کا ہونا اُس کے گناہگار ہونے کی ڈگری نہیں نا ہی کسی کا فیس بُک پر نہ ہونا اُسکے نیک ہونے کی ضمانت ہے۔ انہی میں سے ہوتے ہیں وہ مرد حضرات جو اپنی عورتوں پر خوب ناجائز پابندیاں لگاتے ہیں اور اُسکے باوجود بھی اگر اُنکی کسی عورت سے کوئی گستاخی ہوجائے تو اُسے غیرت کے نام پر مار ڈالتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے اتنا غیرت مند بنا پھرتا تھا۔اب کہاں گئی غیرت ؟  پابندی لگانے سے بہتر ہے اچھے بُرے کی تمیز سکھاؤ تاکہ وہ خود عمل کرے ۔ جبر ، زور زبردستی کی نوبت ہی نہیں آئے۔ بہنیں بھی اُنھی بھائیوں کی ذیادہ قدر کرتی ہیں جو اُن سے پیار کرتے ہیں بے جا پابندیاں نہیں لگاتے جو ہر وقت شک کرتے ہیں   جو پابندیاں لگاتے ہیں اُنکی بہنیں یہی سوچتی ہیں  کہ جب بھائی کو پرواہ نہیں تو میں کیوں اُنکی عزت کی پرواہ کروں  وہ کیوں نہ کروں جو میرا دل چاہتا ہے۔